محبت ہے مجھے تم سے میں یہ اقرار کرتی ہوں
محبت ہے مجھے تم سے یہ میں اقرار کرتی ہوں
ہاں یہ اقرار تو جان وفا سو بار کرتی ہوں
تمہارا راستہ تکتی ہوں کھولے دل کا دروازہ
تمہارے واسطے سجتی ہوں میں سنگھار کرتی ہوں
خفا ہونے سے پہلے سوچ لینا تم ذرا اتنا
کہ تم ہی تو ہو دنیا میں جسے میں پیار کرتی ہوں
فقط مانگا ہے دل تم نے جو پہلے دے چکی تم کو
یہ دل کیا چیز ہے تم پہ میں جاں اپنی نثار کرتی ہوں
تمہیں معلوم ہی کیا ہے تمہیں بتلاؤں میں کیسے
تمارے ہجر کا دریا میں کیسے پار کرتی ہوں
تمہاری شاعری اک دن نہ میری جان لے ڈالے
تمہاری شاعری سےعشق اے دلدار کرتی ہوں
محبت مر جاتی ہیں
محبت مر جاتی ہیں
یا مار دیتی ہیں
کوئی کیا جانے کہ
محبت کیسی سزا دیتی ہے
محبت پیار دیتی ہیں
یا محبت انتظار دیتی ہیں
کوئی کیا جانے کہ
ًمحبت کیسا امتحان دیتی ہے
محبت خواب دیتی ہیں
یا محبت انصاف دیتی ہیں
کوئی کیا جانے کہ
محبت دلوں کو باندھ دیتی ہے
محبت خوشی دیتی ہیں
یا محبت غم دیتی ہیں
کوئی کیا جانے کہ
محبت آنکھوں میں نم دیتی ہے
محبت خزاں دیتی ہیں
یا محبت بہار دیتی ہیں
کوئی کیا جانے کہ
محبت خوشیوں کا جہاں دیتی ہے
محبت احساس دیتی ہیں
یا محبت خیال دیتی ہیں
کوئی کیا جانے کہ
محبت ارمان دیتی ہے
محبت پہ تم کو جو معمور کردو ں
محبت پہ تم کو جو معمور کردوں
محبت کو بانہوں میں مخمور کر دوں
نظر کے حرم میں اتر کر تو دیکھو
محبت کو آنکھوں کا میں نور کر دوں
محبت ہیں آنسو ، محبت تبسم
یہی گنگنانے پہ مجبور کردوں
محبت قصیدہ محبت غزل ہے
یہ قائم محبت کا دستور کردوں ؟
محبت خدا ہے محبت خدائی
تو کیسے تمہیں دل سے میں دور کردوں
محبت بہاروں کی روحِ رواں ہے
محبت میں خوشبو کو مغرور کر دوں
یہ دھرتی ہے کیا چیز امبر پہ وشمہ
محبت ، محبت ہی مشہور کردوں
ان چاہتوں کا چھو لیں پھر آسمان ہم تم
ان چاہتوں کا چھو لیں پھر آسمان ہم تم
آؤ نا بھر کے دیکھیں اونچی اڑان ہم تم
جیسی بھی تہمتیں ہوں ، جیسی بھی ہو عدالت
انصاف کا ہی دیں گے ہر اک بیان ہم تم
سانسوں کا یہ خزانہ کالج ہے زندگی کا
مل جل کے پاس کر لیں ہر امتحان ہم تم
جب تک ہماری کشتی منزل پہ جا نہ پہنچے
چھوڑیں گے تب تلک نہ یہ بادبان ہم تم
نیزوں پہ سر سجائیں ،چراغاں کریں لہو سے
دنیا میں چھور جائیں اپنا نشان ہم تم
گزرے دنوں کے قصے ماضی کا آئینہ ہیں
ہر راستے پہ ہوں گے اب ایک جان ہم تم
ہر سمت ہو محبت ، خوشیاں ہوں ، زندگی ہو
وشمہ جی مل کے ڈھونڈیؔں ایسا جہان ہم تم
ہمیں اتنا پیارا مہربان ملا ہے
ہمیں اتنا پیارا مہربان ملا ہے
بن کے وہ ہماری جان ملا ہے
بڑا مشکل تھا اسے ڈھونڈھنا
مگر وہ ہمیں بڑا آساں ملا ہے
جب بات ہو جاتی ہے اس سے
یوں لگتا مجھے سارا جہان ملا ہے
جب کبھی مجھ سے ملنے آجاتا ہے
ایسا لگتا ہے چوری کا سامان ملا ہے
جس دن سے مہربان ہے وہ اصغر
میزبان ہوں میں دل کو حسیں مہمان ملا ہے
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگیٔ وقت ملاقات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکرؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
عشق تو باکمال ہوتا ہے
ہجر میں بھی وصال ہوتا ہے
عشق تو باکمال ہوتا ہے
عروج کو زوال ہے لیکن
عشق تو لازوال ہوتا ہے
عشق جیسا نہیں کوئی جزبہ
عشق تو بے مثال ہوتا ہے
حسن جس کے بنا ادھورا ہے
عشق تو وہ جمال ہوتا ہے
سبھی رتوں میں پربہار رہے
عشق ایسا نہال ہوتا ہے
ہجر میں بھی وصال ہوتا ہے
عشق تو باکمال ہوتا ہے
یہ بازی عشق کی بازی ہے
تمہارا ہو تو ہو لیکن ہمارا ہو نہیں سکتا
تمہارے بعد اپنا تو گزارا ہو نہیں سکتا
کمال ضبط ہی میں ہے وفا کی آبرو ساری
جو آنسو آنکھ سے ٹپکے ستارا ہو نہیں سکتا
یہ بازی عشق کی بازی ہے اس میں سب منافع ہے
خسارا ہو بھی جائے تو خسارا ہو نہیں سکتا
تجھے میں عشق کی زنجیر پہنا کر رکھوں
تیری صورت کو نگاہوں میں بسا کر رکھوں
دل یہ چاہتا ہے تجھے تجھ ہی سے چُرا کر رکھوں
تجھے دیکھوں، تجھے چاہوں، تجھ ہی سے پیار کروں
تیرے رنگ روپ کو میں سب سے چھپا کر رکھوں
کر لوں قید اپنے دل میں تیرے جیون کو
تجھے میں “عشق“ کی زنجیر پہنا کر رکھوں
کوئی بھی جان نہ پائے تیری آنکھوں کی گہرائی
میں تجھے ایسی “کنول جھیل “بنا کر رکھوں
دل یہ کہتا ہے تیرے بعد کوئی تجھ سا نہ ہو
میں تجھے آخری سانس تک اپنا بنا کر رکھوں
میں کیا کہوں تجھے کیا ہے عشق
میں کیا کہوں تجھے کیا ہے عشق
بس ہوں جانتا کہ سزا ہے عشق
کروں زندگٰی کا گمان کیا
میری موت میں ہی چھپا ہے عشق
جب سے طلب ہے تڑپ بنی
تب سے بسوے وفا ہے عشق
جب سے وہ دل میں سما گے
تب سے مقام بقا ہے عشق
بند ہو گئیں سب حکایتں
جب سے قصیدہ بنا ہے عشق
اپنی تو منزل مزار عشق
اپنا تو مشکل کشا ہے عشق
کب آئے گا وہ ستم گراں
دل مضطرب ہے بکا ہے عشق
Post a Comment