15 Best Romantic Ghazals |  Urdu Love Poetry

Love is thought to be both positive and negative, with its virtue representing human kindness, compassion, and affection, as "the unselfish loyal and benevolent concern for the good of another," and its vice representing human moral flaw, akin to vanity, selfishness, amour-propre, and egotism, as potentially leading to mania, obsessiveness, or codependency. It can also refer to acts of compassion and affection toward other humans, oneself, or animals.




 گزری ہے اپنی زندگی اجڑے دیار میں


گزری ہے اپنی زندگی اجڑے دیار میں

کرتی بھی کیا کہ تھا نہیں کچھ اختیار میں


آ دیکھ آ کے تو بھی کبھی میرا غم کدہ

تیرے بغیر کچھ نہیں دل کے مزار میں


تو نے پلٹ کے دیکھا نہ ہی زندگی نے پھر

میرا جہان لٹ بھی گیا تیرے پیار میں


پھیلے ہیں اس قدر تری یادوں کے سلسلے

مت چھیڑ مجھ کو آج کہ میں ہوں خمار میں


اس کو ہے کیا پتا کہ خزائیں بھی ہیں امر

آیا ہے ملنے آج جو جشنِ بہار میں


مر مر کے بار بار جیئے جانا ہے کٹھن

وشمہ کو مار ڈال تو بس ایک وار میں


وشمہ تو چھین لے مری اک بار زندگی

ہوتا ہے مجھ کو درد زرا باربارا میں


میرا آ ج تیرا کل بن سکتا ہے


میرا آ ج تیرا کل بن سکتا ہے

یہ برا وقت ہے کبھی بھی بدل سکتا ہے


جو خدا تیرا ہے وہ میرا بھی ہے۔۔۔

جو تجھے ملا وہ مجھے بھی مل سکتا ہے۔۔۔


کٹھن راستے خود ہی بتا دیتے ہیں۔۔۔

کہ اُن راستوں پہ ساتھ کون چل سکتا ہے


جانے والوں کو روکنا عادت نہیں ہے ہماری

جو جب چاہیں زندگی سے نکل سکتا ہے۔۔۔


جو نہیں ملا۔..تو نہ ملے شکوہ نہیں ہے

دل اب بچہ نہیں رہا بہل سکتا ہے۔۔


طوفان کے ڈر سے کیااپنا آشیاں چھوڑ دیں

طوفان ہی تو ہے ٹل سکتا ہے۔۔


تھکنا نہیں ہے دستک دیتے رہنا ہے

وہ درِ خدا ہے کبھی بھی کُھل سکتا ہے

 

تمہاری سرد مہری دیکھ کر کُچھ اچھا سا لگا ہے


تمہاری سرد مہری دیکھ کر کُچھ اچھا سا لگا ہے

غم سے بوجھل دِل اب کُچھ ہلکا سا لگا ہے


آنسُو بہاتی تھیں گھٹائیں، سِسک رہی تھیں ہوائیں

کالی بدلیاں اب ہنس رہی ہیں، پتوں کا ہِلنا کُچھ نغمہ سا لگا ہے


کل کو تنہا بیٹھا تھا، بات کرنے کو ترس رہا تھا

آج تُمہیں نہ دیکھ کر لُطف کُچھ جُدا سا لگا ہے


جو کافی دِل جلا رہی تھی، جو سگریٹ سانسیں سُلگا رہی تھی

وہ کڑواہٹ مزہ دے رہی ہے، وہ شعلہ کُچھ دِیا سا لگا ہے



وہ جو خُود کو پانے کیلئے تُمہیں ڈُھونڈ رہا تھا

آج اپنا آپ اُسے کُچھ اپنا سا لگا ہے


زبردستی جِن یادوں سے تخیل کو آباد کِیا

مسرت کا وہ بوجھ کُچھ پُرانا سا لگا ہے


سبھی کہہ رہے تھے پَر تُو نہیں مانا عشقؔ

تعلق کو پیار کہنا اب احمقانہ سا لگا ہے

 

یہ مرا حسن ، جوانی بھی نہیں ہو سکتی


یہ مرا حسن ، جوانی بھی نہیں ہو سکتی

بن ترے رات سہانی بھی نہیں ہو سکتی


اک ترے ساتھ مقدر بھی نہیں مل سکتا

زندگی رات کی رانی بھی نہیں ہو سکتی


اک ملاقات کے وعدے سے گریزاں رہنا

تری فرقت کی نشانی بھی نہیں ہو سکتی


ہم تجھے پیار، محبت بھی نہیں کر سکتے

اور تجھے یاد دہانی بھی نہیں ہو سکتی


گر نئے موڑ پہ ملنے سے ہیں قاصر ہم تم

پھر کوئی راہ پرانی بھی نہیں ہو سکتی


جس سے گزرے نہ تری یاد کا جھونکا وشمہ

میں تو اس باغ کی رانی بھی نہیں ہو سکتی

 

ترا پیار یا پھر قضا چاہتا ہوں


ترا پیار یا پھر قضا چاہتا ہوں

میں اپنے مرض کی دوا چاہتا ہوں


سنا ہے کہ اس کی ادا ہے نرالی

میں اس کی ادا دیکھنا چاہتا ہوں


ستم بھی ہے اچھا ترا اے ستم گر

ترا یہ کرم بارہا چاہتا ہوں


بنا لے تو مجھ کو اسیر محبت

محبت کی میں یہ سزا چاہتا ہوں


مجھے بھی خبر ہے تو کیا چاہتی ہے

تجھے بھی خبر ہے میں کیا چاہتا ہوں

 

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا


رخ زلف میں بے نقاب دیکھا

میں تیرہ شب آفتاب دیکھا


محروم ہے نامہ دار دنیا

پانی سے تہی حباب دیکھا


سرخی سے ترے لبوں کی ہم نے

آتش کو میان آب دیکھا


قاصد کا سر آیا اس گلی سے

نامے کا مرے جواب دیکھا


جانا یہ ہم نے وفات کے بعد

دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا


آفت کا نشانہ ہو چکا تھا

میں دل کی طرف شتاب دیکھا


اک وضع نہیں مزاج معشوق

گہہ لطف و گہے عتاب دیکھا


آنکھوں سے بہاریں گزریں کیا کیا

کس کس کا نہ میں شباب دیکھا


کل مے کدے میں بغیر ساقی

اوندھا قدح شراب دیکھا


کیں اس نے جفائیں بے حسابی

اک دن نہ کبھو حساب دیکھا


سینے سے نکل پڑا نہ آخر

دل کا مرے اضطراب دیکھا


کیا ہوگی فلاح بعد مردن

جیتے تو سدا عذاب دیکھا


آبادی ہے اس کی مصحفیؔ کم

عالم کے تئیں خراب دیکھا

 

تصویر تیری دِل میرا بہلا نہ سکے گی


تصویر تیری دِل میرا بہلا نہ سکے گی

یہ تیری طرح مُجھ سے تو شرما نہ سکے گی


میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی

سینے سے لگا لوں گا تو یہ کُچھ نہ کہے گی

 

اپنے آپ پہ چادر اوڑھ کے چاندنی رات بناؤں گا


اپنے آپ پہ چادر اوڑھ کے چاندنی رات بناؤں گا

اور محبوب سے صبح تلک باتوں میں وقت بتاؤں گا


تاکہ عدم موجودگی میں تجھ کو سُونا پن گھیر نہ لے

میں دفتر جانے سے پہلے ماتھا چوم کے جاؤں گا


شاید قدرت کی وہ رضا سمجھے اور اپنا لے مجھ کو

قصداً اپنی گھڑی میں اس کا دوپٹہ اٹکاؤں گا


نفسا نفسی کے عالم میں محبت کی افزائش کو

رب طاقت دے تو تجھ جیسے ہر بستی میں بناؤں گا


اس کے جسمِ اطہر کی شیرینی جاننے کو عبدی

میں سب سے پہلے نظریں، پھر دل، پھر ہونٹ ملاؤں گا

 

وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے


وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے

بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے


اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے

تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے


کہاں سے آئی یہ خوشبو یہ گھر کی خوشبو ہے

اس اجنبی کے اندھیرے میں کون آیا ہے


مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے

خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے


اسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں

اسے زمانے نے شاید بہت ستایا ہے


تمام عمر مرا دل اسی دھوئیں میں گھٹا

وہ اک چراغ تھا میں نے اسے بجھایا ہے

 

ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت


ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت

حریف حرف مگر اب کے دو بہ دو ہے بہت


وقار گھر کی تواضع ہی پر نہیں موقوف

بہ فیض شاعری باہر بھی آبرو ہے بہت


پھٹے پرانے دلوں کی خبر نہیں لیتا

اگرچہ جانتا ہے حاجت رفو ہے بہت


بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رخ پر

وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت


ادھر ادھر یوں ہی منہ مارتے بھی ہیں لیکن

یہ مانتے بھی ہیں دل سے کہ ہم کو تو ہے بہت


اب اس کی دید محبت نہیں ضرورت ہے

کہ اس سے مل کے بچھڑنے کی آرزو ہے بہت


یہی ہے بے سر و پا بات کہنے کا موقع

پتا چلے گا کسے شور چار سو ہے بہت


یہ حال ہے تو بدن کو بچایئے کب تک

صدا میں دھوپ بہت ہے لہو میں لو ہے بہت


یہی ہے فکر کہیں مان ہی نہ جائیں ظفرؔ

ہمارے معجزۂ فن پہ گفتگو ہے بہت


اداس دل کو محبت کا آسرا دے گی


اداس دل کو محبت کا آسرا دے گی

وہ مجھ کو چھو کے مرا حوصلہ بڑھا دے گی


ذرا سی بات سہی اس کا دیکھنا لیکن

ذرا سی بات مری نیند ہی اڑا دے گی


وہ دم درود کی عادی ہے اور مجھے شک ہے

وہ اپنا پیار مجھے گھول کر پلا دے گی


تم اس کی روشنی تکنے میں گم نہ ہو جانا

وہ ایک لو ہے تمہیں آگ بھی لگا دے گی


سبھی الارم گھڑی کے فضول جائیں گے

کسی کے پاؤں کی آہٹ مجھے جگا دے گی


تو میرے سامنے چپ رہنا اور دل کی بات

تمہارے چہرے کی رنگت مجھے بتا دے گی


کسی کے پیار کی مہندی لگا لے ہاتھوں پر

مہک نہ دے گی مگر رنگ تو چڑھا دے گی


میں جانتا ہوں وہ سڑیل مزاج ہے تحسینؔ

مگر وہ میری غزل سن کے مسکرا دے گی

 

دشت میں پیاسی بھٹک کر تشنگی مر جائے گی


دشت میں پیاسی بھٹک کر تشنگی مر جائے گی

یہ ہوا تو زیست کی امید بھی مر جائے گی


روک سکتے ہو تو روکو مذہبی تکرار کو

خون یوں بہتا رہا تو یہ صدی مر جائے گی


پھر اسی کوچے میں جانے کے لئے مچلا ہے دل

پھر اسی کوچے میں جا کر بے خودی مر جائے گی


بولنا بے حد ضروری ہے مگر یہ سوچ لو

چیخ جب ہوگی عیاں تو خامشی مر جائے گی


نفرتوں کی تیرگی پھیلی ہوئی ہے ہر طرف

پیار کے دیپک جلیں تو تیرگی مر جائے گی


رنج و غم سے رابطہ میرا نہ ٹوٹے اے خدا

یوں ہوا تو میری پوری شاعری مر جائے گی


دوستوں سے بے رخی اچھی نہیں ہوتی امنؔ

دوریاں زندہ رہیں تو دوستی مر جائے گی

 

وصل کیا شے ہے اور فرقت کیا


وصل کیا شے ہے اور فرقت کیا

تم کو معلوم ہے محبت کیا


میری آنکھوں نے تم کو دیکھ لیا

اب ہے بینائی کی ضرورت کیا


اب اسے گھر کی یاد آئی ہے

ڈھ گئی عشق کی عمارت کیا


وصل سے دور ہو گیا بھونرا

پھول سے اڑ گئی ہے نکہت کیا


کتنے بیزار ہو گئے ہو تم

عشق میں ہو گئی تھی عجلت کیا


کتنی رونق ہے بزم فرقت میں

ہے امنؔ آپ کی صدارت کیا

 

اس دل کی سلطنت میں جو شمس وقمر نہیں


آنکھوں کی سر زمین سے کوئی گزر نہیں

اس دل کی سلطنت میں جو شمس وقمر نہیں


بانٹے گی کیا یہ پیار کے لحمے غریب کو

اس زندگی کو دوستو اپنی خبر نہیں


سب راز اپنے کہہ گئی بجھتے دیئے کی لو

شبِ حیات کی یہاں کوئی سحر نہیں


نخلِ خیال پر اگیں کانٹے جفاؤں کے

لیکن وفا کا آج بھی لگتا ثمر نہیں


اک حادثہ یقین کا منظر بدل گیا

آنکھوں پہ واقعات کا کوئی اثر نہیں


ویسے تو ہجر توں کی مسافت طویل ہے

وشمہ تمہاری داستاں بھی مختصر نہیں

 

ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت




ہمیں بھی مطلب و معنی کی جستجو ہے بہت

حریف حرف مگر اب کے دو بہ دو ہے بہت


وقار گھر کی تواضع ہی پر نہیں موقوف

بہ فیض شاعری باہر بھی آبرو ہے بہت


پھٹے پرانے دلوں کی خبر نہیں لیتا

اگرچہ جانتا ہے حاجت رفو ہے بہت


بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رخ پر

وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت


ادھر ادھر یوں ہی منہ مارتے بھی ہیں لیکن

یہ مانتے بھی ہیں دل سے کہ ہم کو تو ہے بہت


اب اس کی دید محبت نہیں ضرورت ہے

کہ اس سے مل کے بچھڑنے کی آرزو ہے بہت


یہی ہے بے سر و پا بات کہنے کا موقع

پتا چلے گا کسے شور چار سو ہے بہت


یہ حال ہے تو بدن کو بچایئے کب تک

صدا میں دھوپ بہت ہے لہو میں لو ہے بہت


یہی ہے فکر کہیں مان ہی نہ جائیں ظفرؔ

ہمارے معجزۂ فن پہ گفتگو ہے بہت

 


People enjoy reading poetry in Urdu and listening to poetry written by poets. The emperors often employed poets in their palaces and enjoyed poetry in their spare time.


Poetry is a means of conveying emotional sentiments, hence poetry genres are as varied as people's emotions. Love, on the other hand, is an immortal sensation that will never fade away, and it is one of the most powerful human emotions.


Poets used to create poetry on societal issues like poverty and slavery. Aside from that, they've been writing about cultural issues as well.


Poets are extremely sensitive people because they observe the most basic and delicate social characteristics. As a result, they are very sensitive and emotional. As a result, we've compiled a collection of unique and unusual love poetry for you.


Many good developments have occurred in the Urdu language over time, resulting in the development of many different genres such as Qawali, Manqabat, Rubai, and so on. People nowadays want not only to read poetry but also to attend poetry groups. As a result, you will experience the influence of all forms of poetry in those gatherings, such as romantic, social issues, cultural, love, and sorrowful poetry.


iLyricss.com is the best site for reading the best collection of Urdu poetry, ghazals, and Shayari.


It is a simple premise that poets composed poetry based on their hobbies and nature. Similarly, other poets worked in multiple genres, such as sorrowful, hilarious, love, romantic, political, Sufi, batish, and so on. Many individuals nowadays use shero Shayari to convey their emotions with family, loved ones, and friends.


You can also read the most recent poetry by fresh young poets here, as poetry by young people is gaining popularity among readers.


Mirza Ghalib is a name that everyone knows. In reality, those who enjoy reading about the fantasy of love and beauty were fans of Mirza Ghalib's poetry. So you may experience the touch of love, romance, and beauty in Mirza Ghalib's ghazals.


Furthermore, Mir Dard and Mir Taqi Mir Shayari are well-known among the bereaved. You can, however, read the poetry of your favourite poets under categories such as ghazals, two lines poetry, and four lines poetry.


Romance derives from Anglo-Norman and Old French romanz, which signify "a storey of chivalry and love." Romantic love is frequently referred to as "romance." In terms of literature, the phrase has a completely distinct meaning. It refers to romantic legends about heroes and knights doing chivalrous actions. Romance is a genre that emphasises chivalry and courtly love via stories and legends about duty, courage, daring, wars, and damsels in distress.





 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post