Charming Love Urdu Poetry | Romantic Ghazals
Love is thought to be both positive and negative, with its virtue representing human kindness, compassion, and affection, as "the unselfish loyal and benevolent concern for the good of another," and its vice representing human moral flaw, akin to vanity, selfishness, amour-propre, and egotism, as potentially leading to mania, obsessiveness, or codependency. It can also refer to acts of compassion and affection toward other humans, oneself, or animals.
وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے
وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے
اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے
تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے
کہاں سے آئی یہ خوشبو یہ گھر کی خوشبو ہے
اس اجنبی کے اندھیرے میں کون آیا ہے
مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے
اسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں
اسے زمانے نے شاید بہت ستایا ہے
تمام عمر مرا دل اسی دھوئیں میں گھٹا
وہ اک چراغ تھا میں نے اسے بجھایا ہے
اداس دل کو محبت کا آسرا دے گی
اداس دل کو محبت کا آسرا دے گی
وہ مجھ کو چھو کے مرا حوصلہ بڑھا دے گی
ذرا سی بات سہی اس کا دیکھنا لیکن
ذرا سی بات مری نیند ہی اڑا دے گی
وہ دم درود کی عادی ہے اور مجھے شک ہے
وہ اپنا پیار مجھے گھول کر پلا دے گی
تم اس کی روشنی تکنے میں گم نہ ہو جانا
وہ ایک لو ہے تمہیں آگ بھی لگا دے گی
سبھی الارم گھڑی کے فضول جائیں گے
کسی کے پاؤں کی آہٹ مجھے جگا دے گی
تو میرے سامنے چپ رہنا اور دل کی بات
تمہارے چہرے کی رنگت مجھے بتا دے گی
کسی کے پیار کی مہندی لگا لے ہاتھوں پر
مہک نہ دے گی مگر رنگ تو چڑھا دے گی
میں جانتا ہوں وہ سڑیل مزاج ہے تحسینؔ
مگر وہ میری غزل سن کے مسکرا دے گی
تجھے چاہنا میری عادت ہے شاید
تجھے چاہنا میری عادت ہے شاید
تجھے پوجنا میری حرکت ہے شاید
تیرے بنا گزارا ہو بھی تو کیسے
تجھ سے محبت میرا امن ہے شاید
تیری روح سے جو آشنا ہوں میں
تجھے پا لینا میری ضد ہے شاید
تیری مسکراہٹ سے خوشی میری
تیری خوشی میری زندگی ہے شاید
تو اتنا معصوم ہے جو سچ کہوں
تیرا رو دینا میری کمی ہے شاید
تیری آنکھوں کی چمک جو دیکھوں
تیرا کھلکھلانا میری ہمت ہے شاید
یاد ہے آج بھی وہ حسین لمحہ
تیرا کہہ دینا میری محبت ہے شاید
وہ دن بھولیں گے بھی تو کیسے آخر
تیرا دیدار میرا چین ہے شاید
وہ چھپ چھپ کے جو دیکھا تھا تو نے
تیری نظر میری شرم ہے شاید
تیری ہر عادت میرا ہر لمحہ ہو جیسے
تیرا چڑ جانا میرا رونا ہے شاید
تیرے آنسوؤں کی تعبیر میں نہ جانوں
تیرا وہ تڑپنا میری ادا ہے شاید
یہ وقت گزر ہی جاتا ہے آخر
تیری محبت میری عبادت ہے شاید
نہیں بھولیں گے کبھی وہ لمحے محبت کے
تیرا یہاں آنا میری قسمت ہے شاید
اس قسمت پر ناز ہے آخر مجھے
تیری حفاظت میری حقیقت ہے شاید
دشت میں پیاسی بھٹک کر تشنگی مر جائے گی
دشت میں پیاسی بھٹک کر تشنگی مر جائے گی
یہ ہوا تو زیست کی امید بھی مر جائے گی
روک سکتے ہو تو روکو مذہبی تکرار کو
خون یوں بہتا رہا تو یہ صدی مر جائے گی
پھر اسی کوچے میں جانے کے لئے مچلا ہے دل
پھر اسی کوچے میں جا کر بے خودی مر جائے گی
بولنا بے حد ضروری ہے مگر یہ سوچ لو
چیخ جب ہوگی عیاں تو خامشی مر جائے گی
نفرتوں کی تیرگی پھیلی ہوئی ہے ہر طرف
پیار کے دیپک جلیں تو تیرگی مر جائے گی
رنج و غم سے رابطہ میرا نہ ٹوٹے اے خدا
یوں ہوا تو میری پوری شاعری مر جائے گی
دوستوں سے بے رخی اچھی نہیں ہوتی امنؔ
دوریاں زندہ رہیں تو دوستی مر جائے گی
وصل کیا شے ہے اور فرقت کیا
وصل کیا شے ہے اور فرقت کیا
تم کو معلوم ہے محبت کیا
میری آنکھوں نے تم کو دیکھ لیا
اب ہے بینائی کی ضرورت کیا
اب اسے گھر کی یاد آئی ہے
ڈھ گئی عشق کی عمارت کیا
وصل سے دور ہو گیا بھونرا
پھول سے اڑ گئی ہے نکہت کیا
کتنے بیزار ہو گئے ہو تم
عشق میں ہو گئی تھی عجلت کیا
کتنی رونق ہے بزم فرقت میں
ہے امنؔ آپ کی صدارت کیا
سونے کی کوششیں تو بہت کی گئیں مگر
سونے کی کوششیں تو بہت کی گئیں مگر
کیا کیجئے جو نیند سے جھگڑا ہو رات بھر
میں نے خود اپنا سایہ ہی بانہوں میں بھر لیا
اس کا خمار چھایا تھا مجھ پہ کچھ اس قدر
آنکھوں میں چند خواب تھے اور دل میں کچھ امید
جلتا رہا میں آگ کی مانند عمر بھر
کیوں کوئی اس پے ڈالے نظر احترام کی
کہلائے علم و فن میں جو یکتا نہ معتبر
پل میں تمام ہو گیا قصہ حیات کا
اس کی نگاہ مجھ پہ رہی اتنی مختصر
دشواریوں سے زندگی آساں ہوئی مری
دشواریوں کا خوف گیا ذہن سے اتر
ہم نے سخن میں کوئی اضافہ نہیں کیا
گیسو غزل کے صرف سنوارے ہیں عمر بھر
علم و ہنر ملے ہیں مگر تیرے سامنے
پہلے بھی بے ہنر تھے امنؔ اب بھی بے ہنر
سمجھ سکے جو مری بات وہ کلام کرے
سمجھ سکے جو مری بات وہ کلام کرے
نہیں سمجھتا تو بس دور سے سلام کرے
جسے بھی چاہیے خیرات میں مری آواز
وہ پہلے میری خموشی کا احترام کرے
کواڑ کھلتے ہی ورنہ بدن سے لپٹے گی
اسے کہو کہ اداسی کا انتظام کرے
معاملات جہاں اس کے واسطے چھوڑے
اور ایک وہ ہے جو فرصت سے اپنے کام کرے
مجھے سکوں ہی وہ آواز سن کے آتا ہے
تو کیوں نہ ربط مسلسل وہ میرے نام کرے
نئی زبان ملی ہے سو ایسا بولتے ہیں
نئی زبان ملی ہے سو ایسا بولتے ہیں
شروع میں تو سبھی الٹا سیدھا بولتے ہیں
خدا کرے کہ کبھی بات بھی نہ کر پائیں
یہ جتنے لوگ تیرے آگے اونچا بولتے ہیں
اسے کہا تھا کہ لوگوں سے گفتگو نہ کرے
اب اس کے شہر کے سب لوگ میٹھا بولتے ہیں
کسی سے بولنا باقاعدہ نہیں سیکھا
بس ایک روز یوں ہی خود سے سوچا بولتے ہیں
نکل کے شور سے آئی تھی اک درخت تلے
مگر یہاں تو پرندے بھی کتنا بولتے ہیں
ہم ایسے لوگ کوئی بات دل میں رکھتے نہیں
کسی سے کوئی گلہ ہو تو سیدھا بولتے ہیں
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
جب کسی ایک کو رہا کیا جائے
جب کسی ایک کو رہا کیا جائے
سب اسیروں سے مشورہ کیا جائے
رہ لیا جائے اپنے ہونے پر
اپنے مرنے پہ حوصلہ کیا جائے
عشق کرنے میں کیا برائی ہے
ہاں کیا جائے بارہا کیا جائے
میرا اک یار سندھ کے اس پار
ناخداؤں سے رابطہ کیا جائے
میری نقلیں اتارنے لگا ہے
آئینے کا بتاؤ کیا کیا جائے
خامشی سے لدا ہوا اک پیڑ
اس سے چل کر مکالمہ کیا جائے
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
شور کروں گا اور نہ کچھ بھی بولوں گا
شور کروں گا اور نہ کچھ بھی بولوں گا
خاموشی سے اپنا رونا رو لوں گا
ساری عمر اسی خواہش میں گزری ہے
دستک ہوگی اور دروازہ کھولوں گا
تنہائی میں خود سے باتیں کرنی ہیں
میرے منہ میں جو آئے گا بولوں گا
رات بہت ہے تم چاہو تو سو جاؤ
میرا کیا ہے میں دن میں بھی سو لوں گا
تم کو دل کی بات بتانی ہے لیکن
آنکھیں بند کرو تو مٹھی کھولوں گا
چہرہ دیکھیں تیرے ہونٹ اور پلکیں دیکھیں
چہرہ دیکھیں تیرے ہونٹ اور پلکیں دیکھیں
دل پہ آنکھیں رکھیں تیری سانسیں دیکھیں
سرخ لبوں سے سبز دعائیں پھوٹی ہیں
پیلے پھولوں تم کو نیلی آنکھیں دیکھیں
سال ہونے کو آیا ہے وہ کب لوٹے گا
آؤ کھیت کی سیر کو نکلیں کونجیں دیکھیں
تھوڑی دیر میں جنگل ہم کو عاق کرے گا
برگد دیکھیں یا برگد کی شاخیں دیکھیں
میرے مالک آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں
ساتھ چلیں ہم اور دنیا کی آنکھیں دیکھیں
ہم تیرے ہونٹوں کی لرزش کب بھولے ہیں
پانی میں پتھر پھینکیں اور لہریں دیکھیں
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
ہماری زندگی برباد کر کے
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منت صیاد کر کے
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کر کے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی میعاد کر کے
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
شب وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں
مٹا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
کھنچی ہوئی ہے جو تصویر یار آنکھوں میں
بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں
ہزار صاحب رخش صبا مزاج آئے
بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں
وہ ایک تھا پہ کیا اس کو جب تہہ تلوار
تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی
نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی
لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی
اس عمر کے بعد اس کو دیکھا
آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں
ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی
لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
آواز میں گونجتی جدائی
بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
تا دیر میں سوچتی رہی تھی
کس ابر گریز پا کی خاطر
میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو
لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!
You can also read the most recent poetry by fresh young poets here, as poetry by young people is gaining popularity among readers.
Mirza Ghalib is a name that everyone knows. In reality, those who enjoy reading about the fantasy of love and beauty were fans of Mirza Ghalib's poetry. So you may experience the touch of love, romance, and beauty in Mirza Ghalib's ghazals.
Furthermore, Mir Dard and Mir Taqi Mir Shayari are well-known among the bereaved. You can, however, read the poetry of your favourite poets under categories such as ghazals, two lines poetry, and four lines poetry.
In short, the trend has shifted slightly, but the premise remains the same. People nowadays prefer to read two lines of poetry rather than a lengthy ghazal Shayari. The cause for this is social media, and people are short on time. People expect two lines of Urdu Shayari to be displayed on social media platforms such as Facebook or WhatsApp. It is, nevertheless, time-saving because they pick up the idea of ghazals or nazams in two lines poetry.
Poetry of friendship, poets sometimes write poems about friendship and even in many cases they often will not really understand. Friendship poetry can be extremely funny or the opposite. friendship or simply the friendship of loved ones. For a few poets, it might be very easy to allow them to compose poems about friendship. Basically the poem called in Hindi shayari, then the friendship poem called Dosti shayari. When a Hindi poet writes a poem about friendship, he is called dosti shayari. Cut close friend dosti shayari, here hindi shayari is also present for best friends. General friendship is sometimes a friendship between two different people who have known each other for some time.
The creators normally compose the poem friendship within this type in an excellent or negative manner with regard to a friend. When the shayari is composed in the love style, the human being mainly composes better characteristics of his good friend or maybe because he does not consider exactly how the good friend performed better.In case the friendship poem is well composed, the poet usually writes down how exactly he loves the friend or maybe he is thinking of something good that the friend has performed. As a result of friendly friendships, you will end up immediately ending this type of poem that you might not find written around the same aspect.
Post a Comment