A best of the best collection of heartbroken Urdu poetry. Get such a nice collection of dukhi Shayari and enjoy. Good heart-touching Urdu words. 


 

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں


وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں

وہ فاصلے بھی گئے اب وہ قربتیں بھی گئیں


دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز

محبتیں تو گئیں تھی عداوتیں بھی گئیں


لبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے

ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں


غرور کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا

وہ جرأتیں بھی گئیں وہ جسارتیں بھی گئیں


نہ اب وہ شدت آوارگی نہ وحشت دل

ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں


دل تباہ تھا بے نام حسرتوں کا دیار

سو اب تو دل سے وہ بے نام حسرتیں بھی گئیں


ہوئے ہیں جب سے برہنہ ضرورتوں کے بدن

خیال و خواب کی پنہاں نزاکتیں بھی گئیں


ہجوم سرو و سمن ہے نہ سیل نکہت و رنگ

وہ قامتیں بھی گئیں وہ قیامتیں بھی گئیں


بھلا دیے غم دنیا نے عشق کے آداب

کسی کے ناز اٹھانے کی فرصتیں بھی گئیں


کرے گا کون متاع خلوص یوں ارزاں

ہمارے ساتھ ہماری سخاوتیں بھی گئیں


نہ چاند میں ہے وہ چہرہ نہ سرو میں ہے وہ جسم

گیا وہ شخص تو اس کی شباہتیں بھی گئیں


گیا وہ دور غم انتظار یار سحرؔ

اور اپنی ذات پہ دانستہ زحمتیں بھی گئیں

 

مجھے بھول جانے والے


مجھے بھول جانے والے تجھے یاد کر رہا ہوں

اشکوں سے اپنی راتیں برباد کر رہا ہوں


سلگتا ہوا ہے ماضی پرچھائیوں کے در پر

خود کو ستا کے دل کو ناشاد کر رہا ہوں


دل توڑ کے توں نے ظالم کیسا ستم کیا ہے

زخمائے ہوئے ٹکڑوں کو بے تاب کر رہا ہوں


گمنام سے سفر کی کب شام یہ ڈھلے گی

ہر راہ کی گھٹن کو سیراب کر رہا ہوں


پتھرا گئی تھیں آنکھیں سنگلاخ راستوں پے

دھلا گئیں ہیں نظریں کہرام کر رہا ہوں

 

اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے


اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے

یہ ہم نے عشق کیا ہے یا کوئی بھول کی ہے


خیال آیا ہے اب راستہ بدل لیں گے

ابھی تلک تو بہت زندگی فضول کی ہے


خدا کرے کہ یہ پودا زمیں کا ہو جائے

کہ آرزو مرے آنگن کو ایک پھول کی ہے


نہ جانے کون سا لمحہ مرے قرار کا ہے

نہ جانے کون سی ساعت ترے حصول کی ہے


نہ جانے کون سا چہرہ مری کتاب کا ہے

نہ جانے کون سی صورت ترے نزول کی ہے


جنہیں خیال ہو آنکھوں کا لوٹ جائیں وہ

اب اس کے بعد حکومت سفر میں دھول کی ہے


یہ شہرتیں ہمیں یوں ہی نہیں ملی ہیں شکیلؔ

غزل نے ہم سے بھی بہت وصول کی ہے


 تو ساتھ ہے مگر کہیں تیرا پتا نہیں


تو ساتھ ہے مگر کہیں تیرا پتا نہیں

شاخوں پہ دور تک کوئی پتا ہرا نہیں


خاموشیاں بھری ہیں فضاؤں میں ان دنوں

ہم نے بھی موسموں سے ادھر کچھ کہا نہیں


تو نے زباں نہ کھولی سخن میں نے چن لیے

تو نے وہ پڑھ لیا جسے میں نے لکھا نہیں


یہ کون سی جگہ ہے یہ بستی ہے کون سی

کوئی بھی اس جہان میں تیرے سوا نہیں


چلیے بہت قریب سے سب دیکھنا ہوا

اپنے گماں سے ہٹ کے کہیں کچھ ہوا نہیں


چھوڑا ہے جانے کس نے مجھے بال و پر کے ساتھ

یہ کن بلندیوں پہ جہاں پر ہوا نہیں


رنگ طلب ہے کون سی منزل میں کیا کہیں

آنکھوں میں مدعا نہیں لب پر صدا نہیں


پیچھے ترے اے راحت جان کچھ نہ پوچھیو

کیا کیا ہوا نہیں یہاں کیا کچھ ہوا نہیں

 

گزری ہے اپنی زندگی اجڑے دیار میں


 گزری ہے اپنی زندگی اجڑے دیار میں

کرتی بھی کیا کہ تھا نہیں کچھ اختیار میں


آدیکھ آکے تو بھی کبھی میرا غم کدہ

تیرے بغیر کچھ نہیں دل کے مزار میں


تونے پلٹ کے دیکھا نہ ہی زندگی نے پھر

میرا جہاں بھی لٹ گیا ہے تیرے پیار میں


پھیلے ہیں اس قدر تری یادوں کے سلسلے

مت چھیڑ مجھ کو آج کہ میں ہوں خمار میں


اس کو ہے پتا کہ خزائیں بھی ہیں امر

آیا ہے ملنے آج جو جشنِ بہار میں


مر مر کے بار بار جئے جانا ہے کٹھن

مجھ کو تو مار ڈال نا بس ایک وار میں


وشمہ تو چھین لے مری اک بار زندگی

ہوتا ہے مجھ کو درد بار بار میں

 

یقِیں نہِیں تو محبّت کو آزماتا جا


یقِیں نہِیں تو محبّت کو آزماتا جا

لُٹا خُلوص، وفاؤں کے گِیت گاتا جا


تقاضہ تُجھ سے اگر کر رہی کوئی ممتازؔ

دل آگرہؔ ہے محل اِس پہ تُو بناتا جا


بجا کہ ہم نے تُجھے ٹُوٹ کر ہے سراہا، پر

اب اِس قدر بھی نہِیں رُوح میں سماتا جا


نہ ہو کہ بعد میں مُمکِن نہِیں ہو تیرے لِیئے

ابھی سے مُجھ سے ذرا فاصلہ بڑھاتا جا


تِرا نصّیب ہُوں جیسا بھی ہُوں سمیٹ مُجھے

بُدک نہ مُجھ سے تُو ہنس کر گلے لگاتا جا


میں تیرے بعد بھلا جی کے بھی کرُوں گا کیا

چلا ہے تُو تو دِیّا سانس کا بُجھاتا جا


کبھی شرِیک تھا حسرتؔ نفع تھا یا نقصان

نہِیں ہے اب تو کہِیں پر بھی تیرا کھاتہ، جا

 

تری آنکھ کے بھنور سے میں یہ سوچ کر ہی نکلی


ترے آستاں پہ اب بھی مری خندہ یہ جبیں ہے

مری سانس سانس تیری ، مرے دل میں تو مکیں ہے


تری آنکھ کے بھنور سے میں یہ سوچ کر ہی نکلی

"ترے میکدے میں ساقی وہ خمار اب نہیں ہے"


تری یاد کا وہ دریا ، مرے پیار کا سمندر

مری زندگی کہیں ہے ، تری زندگی کہیں ہے


میں نے مشکلوں سے سیکھا تری خواہشوں سے لڑنا

مری سوچ سے بھی بڑھ کر تری آرزو حسیں ہے


تری داستانِ الفت ، ہے یہ داستانِ عبرت

ترے پیار میں وفا کا یہاں راستہ حزیں ہے


تُو بھی اپنے اُس جہاں کے وہاں گیت گا لے وشمہ

یہاں میرے اِس چمن میں مری زندگی مکیں ہے


 کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا


کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا

ٹوٹے پڑے تھے آئنے پتھر نہیں ملا


پتھر کے جیسی بے حسی اس کا نصیب ہے

وہ قوم جس کو کوئی پیمبر نہیں ملا


جب تک وہ جھوٹ کہتا رہا سر پہ تاج تھا

سچ کہہ دیا تو تاج ہی کیا سر نہیں ملا


ہم رات بھر جلیں بھی تمہیں روشنی بھی دیں

ہم کو چراغ جیسا مقدر نہیں ملا


شہر ستم بھی جشن اماں مت منا ابھی

شاید ستم گروں کو ترا گھر نہیں ملا


ماں باپ کی دعاؤں سے بڑھ کر جہیز میں

دلہن کو اور کوئی بھی زیور نہیں ملا


داناؔ وہ اب بھی آتا ہے تنہائیوں میں یاد

دنیا کی بھیڑ میں جو بچھڑ کر نہیں ملا

 

جنوں عشق سر چڑھا اور وجدان بن گیا


جنوں عشق سر چڑھا اور وجدان بن گیا

جیتے کیا زندگی ؟ جب مرنا آساں بن گیا


ان سے وفا کرنے میں ہمنے حد کر دی

تو وہ اور مغرور بنکر بد گماں بن گیا


نجانے کب سے بیٹھے ہیں یار اچمبے میں

کہ وہ اپنا ہو کر کے کیسے انجان بن گیا


جس سے وابسطہ رہی اپنی حیات کل ساری

آہ وہ کس طرح ہم سے اسد گریزاں بن گیا

 

سب کو اپنے ذہن سے جھٹکا خود کو یاد کیا


سب کو اپنے ذہن سے جھٹکا خود کو یاد کیا

لیکن ایسا سب کچھ لٹ جانے کے بعد کیا


اس کو اس کی اپنی قربت نے سرشار رکھا

مجھے تو شاید میرے ہجر نے ہی برباد کیا


میں بھی خالی ہو کر اپنے گھر لوٹ آیا ہوں

اس نے بھی اک ویرانے کو جا آباد کیا


کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے

کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا


عشق میں انجمؔ لے ڈوبی ہے تھوڑی سی تاخیر

جنموں پہلے جو واجب تھا وہ مابعد کیا

 

ہوا جفاؤں کی ایسی چلا گیا کوئی


ہوا جفاؤں کی ایسی چلا گیا کوئی

چراغ میری وفا کا بجھا گیا کوئی


نہ کوئی نقش قدم ہے نہ منزلوں کا پتا

یہ راستہ مجھے کیسا دکھا گیا کوئی


اسی امید پے میں انتظار کرتی رہی

میں لوٹ آؤنگا کہ کر چلا گیا کوئی


تمام عمر کے احساں بھلا دۓ اس نے

ذرا سی بات پے ہو کر خفا گیا کوئی


اب اس سے بڑھکے بھلا بے وفائی کیا ہوگی

ہنسایا جس نے اسی کو رلا گیا کوئی


کسی کے عشق میں سب کچھ لٹا دیاوشمہ

دل و دماغ پے اس طرح چھا گیا کوئی

 

یہ جو دل اقرار پر اقرار سا کرنے لگا ہے


یہ جو دل اقرار پر اقرار سا کرنے لگا ہے

اب کسی اور سے بھی پیار سا کرنے لگا ہے


اب جو الزامِ محبت سے وہ ڈرتا ہی نہیں

اب محبت کو وہ شَہْکار سا کرنے لگا ہے


اپنی دل پھینک اداوں کے سبب دیکھو وہ

پارساوں کو گنہگار سا کرنے لگا ہے


اب چھپانے جو لگا ہے رُخِ زیبا شاہ میؔر

اب مری آنکھ کو بیکار سا کرنے لگا ہے


 میں نے دیکھا ہے اپنوں کا غیر ہونا


میں نے دیکھا ہے، اپنوں کا غیر ہونا

چلتےہوئےرشتوں میں، ہیراپھیر ہونا


اک وہ وقت، جب دن میں بھی سوتا تھا سکون کے ساتھ

اب یہ کہ ساری رات جاگنا، اور روتےروتے سحر ہونا


کیایاد ہے میری طبیعت جو ٹھک نہ ہو پاتی تھی؟

ہائے وہ اک تیرا مسکرانا، اور فٹ سے خیر ہونا


ہار بیٹھا ہوں باذئ عشق، بزدلوں کی طرح

جن کو مل گیا یار ان کو مبارک ہو دلیر ہونا


گزار دیتا ہوں وقت اپنا اس ایک کو سوچ کر

کبھی یاد آنا جلدع، کبھی بھولتے ہوئے دیر ہونا


ماجد بھی کر بیٹھا ہے سوال اس خالق سے خلق پر

کہ یہاں بے حس ہیں سانپ اور انسانوں میں زہر ہونا؟

 

یار مجھکو سرے بازار یوں رسوا نہ کرو


یار مجھکو سرے بازار یوں رسوا نہ کرو

میری برباد محبّت کا تماشہ نہ کرو


میں وہ آئینہ ہوں سچ جس میں نظر آتا ہے

تم کو ڈر ہے تو مرے سامنے آیا نہ کرو


دل کے سوۓ ہوئے زخموں کو ہوا لگتی ہے

یار محفل میں مرے نام کا چرچا نہ کرو


ایک دو روز کی مہمان ہوں اس بستی میں

خود چلی جاؤں گی تم آنکھ دکھایا نہ کرو


میں وو گلشن ہی نہیں جس میں بہاریں آئیں

مجھ سے پھولوں کی مرے یارتمنا نہ کرو


یہ سبق ہم کو بزرگوں سے ملا ہے" وشمہ

جان دے دو مگر ایمان کا سودا نہ کرو

 

وہ جس سفرِ محبت میں تھے ہم


وہ جس سفرِ محبت میں تھے ہم ،وہ سفرکب کا تمام کرآۓ

سازوسامان کی بھی پرواہ نہ کی یہاں تک کہ دلِ ناداں قربان کر آۓ


رنگینیوں میں ڈوبی ہوئی دنیا اب بس سفید سیاہ کی مانند ہے

کہ جس آنے پر دیکھی تھی بہار اسے پچھلے اسٹیشن ہی چھوڑ آۓ


کیا لکھوں کیا کیا کہوں میں اس حسن شناس کی توصیف میں

وہ ستم گر جو سب بھلا چکا، ہمیں آج بھی اس کی مروت یاد آۓ


دل نشیں تو تھا بہت وہ، دل فریبی میں بھی کوئی مقابل نہیں

جسے ہم اپنا سمجھ کر جیتے رہے، وہ بھی اوروں کی محفل لوٹ آۓ


محبت تو خوش نصیبی ہے اور خوش بخت ہے وہ جسے مل جاۓ

ہم تو رقیبوں کی صف میں شمار ہوۓ, جب بھی تقسیم محبت کا وقت آۓ

 




Post a Comment

Previous Post Next Post