کافی ھے ایک سجدہ اسکی رضا کو اسد
بد نام نہ کیجیئے سر عام نہ کیجیئے
اپنی عزت آپ خود نیلام نہ کیجیئے
ھے صبر کی التجاء کوئی حضور سے۔
جلد بازی میں کوئی کام نہ کیجیئے۔
مانا برے ہیں ہم بے ادب گستاخ۔
چلو جناب کی مرضی کلام نہ کیجیئے۔
اکثر کسی کی یاد ستاتی رھتی ھے۔
یادوں کے پیچھے زندگی حرام نہ کیجیئے۔
کافی ھے ایک سجدہ اسکی رضا کو اسد
قضا کے چکر میں عمر تمام نہ کیجیئے
خود سے نظر ملانے کی جرعت نہیں رہی
خود سے نظر ملانے کی جرعت نہیں رہی
آئینے میں منہ ٹکانے کی جرعت نہیں رہی
بارہا کی کوشش ہم نے خود سر بدلنے کی۔۔۔
مگر کوئی بدلائو لانے کی جرعت نہیں رہی۔۔۔
کوئی تو دلا دو نجات ہمیں ان اندھیروں سے۔
کہ خود سے روشنی پانے کی جرعت نہیں رہی
جِیتنے والے جِیت جائیں گے
جِیتنے والے جِیت جائیں گے
ہارنے والے ہار جائیں گے
شادیانے بجائے جائیں گے
خوشیوں کے گیت گائے
رنج اُٹھائے جائیں گے
کہیں اشک بہائے جائیں گے
جِیتنے والے جِیت جائیں گے
ہارنے والے ہار جائیں گے
یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
ہیں کچھ جو ہر دم لٹتے ہیں اپنے ہی کوچہ یار میں
ہیں ہوتے فروخت غنچہ گلفام بھی جا بجا بازار میں
یوں دیوانے غنچہ خام کے بھی دیتے دام اشغال میں
ہے یہ اعجوبہ ہی بےنام بکتے لوگ سرعام بازار میں
یوں جی رہے سب ہی اس بے حسی کے عالم حصار میں
اجلے لوگ اب نظر آتے نہیں جا بسے وہ دیار غیر میں
اٹھے تن من سے دھواں یا لگے آ گ دیار اشجار میں
میلے تن من پے چڑھے صوفیانہ خول کے خول یوں
ملتی نہیں سانس گو ملتی ہر شہ جنگل ود نگل کے بازار میں
کیوں نہ اپنے ہونے پر پشیمان ہوں
کیوں نہ اپنے ہونے پر پشیمان ہوں
جبکہ جانور کے جیسا میں انسان ہوں
کوئی مجھکو رکھتا ھے جوتے کی نوک پر۔
تو کسی کے واسطے میں ذی وقار ذیشاں ہوں۔
دکھنے میں بھولا بھالا یار ہوں میں مگر ۔
تہین انتہائے کمینہ ہوں میں شیطان ہوں۔
جسے پیار کر لوں تا مرگ اسے چاہوں۔
اور نفرت کروں تو سراسر نقصاں ہوں۔
مجھپر نا خدائی کا الزام نہ لگائو کوئی ۔
کہ بندہ ہوں خدا کا نا کہ بھگواں ہوں
مقصد حیات
توڑ کر ہم سے وفاء کے رشتے
ڈھونڈھنے نکلا ھے بقاءکے رشتے
جب کوئی خود سے بھی نہیں مخلص
تو کیوں بنانے نکلا ھے بیوجہ کے رشتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں کچھ طلب سے سوا چاھتا ہوں ؟؟؟
بس اپنے پیار کی میں انتہا چاھتا ہوں۔۔۔
مجھکو کافی ھے اسد تیرے در کی خیرات ۔۔۔
بس اک ٹکڑہ وفا ہاں فقط اتنا چاھتا ہوں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹتا نہیں ھے اسکی اوور سے دھیان کیا کیجیئے؟
ہونے لگا ھے زمانے کو شک و گمان کیا کیجیئے؟
وہ جس کو پا لینا ہی اسد مقصد حیات ہو۔۔
اور وہ تم پر نہ ہو کسی سورت مہربان کیا کیجیئے؟
ورد میرا روزانہ ،ساقی تیرا مے خانہ
ورد میرا روزانہ ،ساقی تیرا مے خانہ
ساقی تیرا مے خانہ ، ورد میرا روزانہ
مجھ شرابی کو ساغر ترسے ، ترسے مے خانہ
سب کہے، حقیقت ہی میکدے میں دیوانہ
مست جب نشے میں جھومے تو بھید ہی کھولے
مست جی خوشی سے بھرتے سبھی کا پیمانہ
شمع گرد جھومے کس سمت یار پروانہ
جرس ہے پرانا اک رمز پا کے مر جانا
دیکھ کر نشے میں دُھن سب لگاتے ہیں تہمت
توبہ کرتا ہوں مے پی کر جناب روزانہ
یار میں ازل سے رندانِ بزمِ محوِ ہوں
مے پلانی ہے تم نے میکدے میں پھر آنا
مجھ سے تو بنے ساقی، میکدے میں سب رونق
قدر کر مری میرے بعد میں نہ پچھتانہ
چین ڈھونڈھتے ہیں کہیں قرار ڈھونڈھتے ہیں
چین ڈھونڈھتے ہیں کہیں قرار ڈھونڈھتے ہیں۔
اس ہجوؐم دھر سے راھے فرار ڈھونڈھتے ہیں۔
اے کاش کہیں مل جائے وہ روبرو کی سورت۔
جو عکس آئینے میں ہم بار بار ڈھونڈھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بیتی لکھیں کہ غم یار کی دھائی لکھیں۔
تیری سرکار میں پہلے کسی کی سنوائی لکھیں؟
ایک سی ھے دونوں کی روداد الم اپنے۔
بیشتر تیری حضور اب کس کی رونمائی لکھیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا بھی وقت آئے گا اک دن جہان میں۔
جب ستارہ بن کر چمکیں گے آسمان میں۔
حیف ! مگر اس وقت اسد ہم نہیں ہوںگے۔
پڑے ہوں گے مدفن کہیں قبرستان میں
اشعار
نہیں مانگتا کسی اور سے کچھ تیری ذات کے سوا۔۔۔
بخش دے مجھکو بہت کچھ میری اوقات سے سوا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ تیرے غم نے اپنے دل کو نڈہال کر رکھا ھے۔۔۔
پھر بھی مطمعن ہوں تونے توجہ خیال کر رکھا ھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانا کہ تم بچھڑ گئے ہو ہم سے یار لیکن !!!
کیا حق حاصل نہیں ہمین وجہ پوچھنے کا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ایک خطا کر دی دل ان کو دے کر۔۔۔
آہ ! ظلم کی انتہا کر دی دل ان کو دے کر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کو اپنے ناز ھے اسد اس کی طرف داری پر۔۔
یعنی ہر حال مطمعن ھےوہ اسکی وفا شعاری پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ زندگی کہ سانسین سب تیری امانت ہیں۔۔۔
میں جی رہا ہوں جو حیات وہ کل تمہاری ھے۔۔
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
ہماری زندگی برباد کر کے
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منت صیاد کر کے
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کر کے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی میعاد کر کے
رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
وصل کا خواب مکمل ہو جائے
چاند کا چوما ہوا سرخ گلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے
میں اندھیروں کو اجالوں ایسے
تیرگی آنکھ کا کاجل ہو جائے
دوش پر بارشیں لے کے گھومیں
میں ہوا اور وہ بادل ہو جائے
نرم سبزے پہ ذرا جھک کے چلے
شبنمی رات کا آنچل ہو جائے
عمر بھر تھامے رہے خوش بو کو
پھول کا ہاتھ مگر شل ہو جائے
چڑیا پتوں میں سمٹ کر سوئے
پیڑ یوں پھیلے کہ جنگل ہو جائے
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
شب وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں
مٹا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
کھنچی ہوئی ہے جو تصویر یار آنکھوں میں
بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں
ہزار صاحب رخش صبا مزاج آئے
بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں
وہ ایک تھا پہ کیا اس کو جب تہہ تلوار
تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی
نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکر فصل گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہوگی
میں اپنے گھر میں اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں وہ منزل ہے چاہت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
تم کہتے ہو تو پھر اچھا دیکھا ہے
میں اس کو اپنی وحشت تحفے میں دوں
ہاتھ اٹھائے جس نے صحرا دیکھا ہے
بن دیکھے اس کی تصویر بنا لوں گا
آج تو میں نے اس کو اتنا دیکھا ہے
ایک نظر میں منظر کب کھلتے ہیں دوست
تو نے دیکھا بھی ہے تو کیا دیکھا ہے
عشق میں بندہ مر بھی سکتا ہے، میں نے
دل کی دستاویز میں لکھا دیکھا ہے
میں تو آنکھیں دیکھ کے ہی بتلا دوں گا
تم میں سے کس کس نے دریا دیکھا ہے
آگے سیدھے ہاتھ پہ اک اترائی ہے
میں نے پہلے بھی یہ رستہ دیکھا ہے
تم کو تو اس باغ کا نام پتہ ہو گا
تم نے تو اس شہر کا نقشہ دیکھا ہے
Read 15 most loving ghazals collections. Love and Romantic poetry pictures can undoubtedly impart it to your loved ones including your loved ones. Up till a few books have been composed on Love Shayari. Love Shayari in Urdu and ghazals Lovers have their own decision or inclination and here you can understand Romantic and Love poetry in Urdu.
کافی ھے ایک سجدہ اسکی رضا کو اسد
بد نام نہ کیجیئے سر عام نہ کیجیئے
اپنی عزت آپ خود نیلام نہ کیجیئے
ھے صبر کی التجاء کوئی حضور سے۔
جلد بازی میں کوئی کام نہ کیجیئے۔
مانا برے ہیں ہم بے ادب گستاخ۔
چلو جناب کی مرضی کلام نہ کیجیئے۔
اکثر کسی کی یاد ستاتی رھتی ھے۔
یادوں کے پیچھے زندگی حرام نہ کیجیئے۔
کافی ھے ایک سجدہ اسکی رضا کو اسد
قضا کے چکر میں عمر تمام نہ کیجیئے
خود سے نظر ملانے کی جرعت نہیں رہی
خود سے نظر ملانے کی جرعت نہیں رہی
آئینے میں منہ ٹکانے کی جرعت نہیں رہی
بارہا کی کوشش ہم نے خود سر بدلنے کی۔۔۔
مگر کوئی بدلائو لانے کی جرعت نہیں رہی۔۔۔
کوئی تو دلا دو نجات ہمیں ان اندھیروں سے۔
کہ خود سے روشنی پانے کی جرعت نہیں رہی
جِیتنے والے جِیت جائیں گے
جِیتنے والے جِیت جائیں گے
ہارنے والے ہار جائیں گے
شادیانے بجائے جائیں گے
خوشیوں کے گیت گائے
رنج اُٹھائے جائیں گے
کہیں اشک بہائے جائیں گے
جِیتنے والے جِیت جائیں گے
ہارنے والے ہار جائیں گے
یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
ہیں کچھ جو ہر دم لٹتے ہیں اپنے ہی کوچہ یار میں
ہیں ہوتے فروخت غنچہ گلفام بھی جا بجا بازار میں
یوں دیوانے غنچہ خام کے بھی دیتے دام اشغال میں
ہے یہ اعجوبہ ہی بےنام بکتے لوگ سرعام بازار میں
یوں جی رہے سب ہی اس بے حسی کے عالم حصار میں
اجلے لوگ اب نظر آتے نہیں جا بسے وہ دیار غیر میں
اٹھے تن من سے دھواں یا لگے آ گ دیار اشجار میں
میلے تن من پے چڑھے صوفیانہ خول کے خول یوں
ملتی نہیں سانس گو ملتی ہر شہ جنگل ود نگل کے بازار میں
کیوں نہ اپنے ہونے پر پشیمان ہوں
کیوں نہ اپنے ہونے پر پشیمان ہوں
جبکہ جانور کے جیسا میں انسان ہوں
کوئی مجھکو رکھتا ھے جوتے کی نوک پر۔
تو کسی کے واسطے میں ذی وقار ذیشاں ہوں۔
دکھنے میں بھولا بھالا یار ہوں میں مگر ۔
تہین انتہائے کمینہ ہوں میں شیطان ہوں۔
جسے پیار کر لوں تا مرگ اسے چاہوں۔
اور نفرت کروں تو سراسر نقصاں ہوں۔
مجھپر نا خدائی کا الزام نہ لگائو کوئی ۔
کہ بندہ ہوں خدا کا نا کہ بھگواں ہوں
مقصد حیات
توڑ کر ہم سے وفاء کے رشتے
ڈھونڈھنے نکلا ھے بقاءکے رشتے
جب کوئی خود سے بھی نہیں مخلص
تو کیوں بنانے نکلا ھے بیوجہ کے رشتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں کچھ طلب سے سوا چاھتا ہوں ؟؟؟
بس اپنے پیار کی میں انتہا چاھتا ہوں۔۔۔
مجھکو کافی ھے اسد تیرے در کی خیرات ۔۔۔
بس اک ٹکڑہ وفا ہاں فقط اتنا چاھتا ہوں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹتا نہیں ھے اسکی اوور سے دھیان کیا کیجیئے؟
ہونے لگا ھے زمانے کو شک و گمان کیا کیجیئے؟
وہ جس کو پا لینا ہی اسد مقصد حیات ہو۔۔
اور وہ تم پر نہ ہو کسی سورت مہربان کیا کیجیئے؟
ورد میرا روزانہ ،ساقی تیرا مے خانہ
ورد میرا روزانہ ،ساقی تیرا مے خانہ
ساقی تیرا مے خانہ ، ورد میرا روزانہ
مجھ شرابی کو ساغر ترسے ، ترسے مے خانہ
سب کہے، حقیقت ہی میکدے میں دیوانہ
مست جب نشے میں جھومے تو بھید ہی کھولے
مست جی خوشی سے بھرتے سبھی کا پیمانہ
شمع گرد جھومے کس سمت یار پروانہ
جرس ہے پرانا اک رمز پا کے مر جانا
دیکھ کر نشے میں دُھن سب لگاتے ہیں تہمت
توبہ کرتا ہوں مے پی کر جناب روزانہ
یار میں ازل سے رندانِ بزمِ محوِ ہوں
مے پلانی ہے تم نے میکدے میں پھر آنا
مجھ سے تو بنے ساقی، میکدے میں سب رونق
قدر کر مری میرے بعد میں نہ پچھتانہ
چین ڈھونڈھتے ہیں کہیں قرار ڈھونڈھتے ہیں
چین ڈھونڈھتے ہیں کہیں قرار ڈھونڈھتے ہیں۔
اس ہجوؐم دھر سے راھے فرار ڈھونڈھتے ہیں۔
اے کاش کہیں مل جائے وہ روبرو کی سورت۔
جو عکس آئینے میں ہم بار بار ڈھونڈھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بیتی لکھیں کہ غم یار کی دھائی لکھیں۔
تیری سرکار میں پہلے کسی کی سنوائی لکھیں؟
ایک سی ھے دونوں کی روداد الم اپنے۔
بیشتر تیری حضور اب کس کی رونمائی لکھیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا بھی وقت آئے گا اک دن جہان میں۔
جب ستارہ بن کر چمکیں گے آسمان میں۔
حیف ! مگر اس وقت اسد ہم نہیں ہوںگے۔
پڑے ہوں گے مدفن کہیں قبرستان میں
اشعار
نہیں مانگتا کسی اور سے کچھ تیری ذات کے سوا۔۔۔
بخش دے مجھکو بہت کچھ میری اوقات سے سوا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ تیرے غم نے اپنے دل کو نڈہال کر رکھا ھے۔۔۔
پھر بھی مطمعن ہوں تونے توجہ خیال کر رکھا ھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانا کہ تم بچھڑ گئے ہو ہم سے یار لیکن !!!
کیا حق حاصل نہیں ہمین وجہ پوچھنے کا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ایک خطا کر دی دل ان کو دے کر۔۔۔
آہ ! ظلم کی انتہا کر دی دل ان کو دے کر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کو اپنے ناز ھے اسد اس کی طرف داری پر۔۔
یعنی ہر حال مطمعن ھےوہ اسکی وفا شعاری پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ زندگی کہ سانسین سب تیری امانت ہیں۔۔۔
میں جی رہا ہوں جو حیات وہ کل تمہاری ھے۔۔
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
ہماری زندگی برباد کر کے
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منت صیاد کر کے
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کر کے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی میعاد کر کے
رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
وصل کا خواب مکمل ہو جائے
چاند کا چوما ہوا سرخ گلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے
میں اندھیروں کو اجالوں ایسے
تیرگی آنکھ کا کاجل ہو جائے
دوش پر بارشیں لے کے گھومیں
میں ہوا اور وہ بادل ہو جائے
نرم سبزے پہ ذرا جھک کے چلے
شبنمی رات کا آنچل ہو جائے
عمر بھر تھامے رہے خوش بو کو
پھول کا ہاتھ مگر شل ہو جائے
چڑیا پتوں میں سمٹ کر سوئے
پیڑ یوں پھیلے کہ جنگل ہو جائے
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
شب وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں
مٹا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
کھنچی ہوئی ہے جو تصویر یار آنکھوں میں
بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں
ہزار صاحب رخش صبا مزاج آئے
بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں
وہ ایک تھا پہ کیا اس کو جب تہہ تلوار
تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی
نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکر فصل گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہوگی
میں اپنے گھر میں اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں وہ منزل ہے چاہت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
تم کہتے ہو تو پھر اچھا دیکھا ہے
میں اس کو اپنی وحشت تحفے میں دوں
ہاتھ اٹھائے جس نے صحرا دیکھا ہے
بن دیکھے اس کی تصویر بنا لوں گا
آج تو میں نے اس کو اتنا دیکھا ہے
ایک نظر میں منظر کب کھلتے ہیں دوست
تو نے دیکھا بھی ہے تو کیا دیکھا ہے
عشق میں بندہ مر بھی سکتا ہے، میں نے
دل کی دستاویز میں لکھا دیکھا ہے
میں تو آنکھیں دیکھ کے ہی بتلا دوں گا
تم میں سے کس کس نے دریا دیکھا ہے
آگے سیدھے ہاتھ پہ اک اترائی ہے
میں نے پہلے بھی یہ رستہ دیکھا ہے
تم کو تو اس باغ کا نام پتہ ہو گا
تم نے تو اس شہر کا نقشہ دیکھا ہے
Read 15 most loving ghazals collections. Love and Romantic poetry pictures can undoubtedly impart it to your loved ones including your loved ones. Up till a few books have been composed on Love Shayari. Love Shayari in Urdu and ghazals Lovers have their own decision or inclination and here you can understand Romantic and Love poetry in Urdu.
Post a Comment